استاذالعلماء و الفضلاء ، افتخار اہل حق ، نازش فکر وفن ، زینت قرطاس وقلم ، خلیفۂ اعلیحضرت، فقیہ اعظم ہند ، صدرالشریعہ ، بد الطریقہ ، ابوالعُلٰی ، حضرت علامہ الحاج حکیم محمد امجد علی مصنف بہار شریعت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت
باب ہے تیری بصیرت کا کُشادہ آج بھی
عام ہے سب کو ترا علمی افادہ آج بھی
موت کی پوشاک تجھکو کر نہیں سکتی فنا
زندہ ہے تیرے تَفَقُّہ کا لبادہ آج بھی
گلشنِ فکر و نظرکو دی شریعت کی بہار
جس سے دنیا کررہی ہے استفادہ آج بھی
"میرا امجد مَجْد کا پکّا ” رضا نے یہ کہا
ہو رہا ہے باربار اِس کا اعادہ آج بھی
ہر قدم پر جگمگاتی ہے ہنر کی کہکشاں
حکمتوں کا آسماں ہے، تیرا جادہ آج بھی
بارگاہ مصطفیٰ سے ایسی بینائ ملی
چشمِ فن ہے مَظہَرِ چشمِ قتادہ آج بھی
سب افاضل، واسطہ در واسطہ شاگرد ہیں
بڑھ رہا ہے تیرا علمی خانوادہ آج بھی
تیری نسبت ہے زمانے کے ہنر کا افتخار
گردنِ عالم میں ہے ، تیرا قلادہ آج بھی
کب پہنچ پائے گا تیرے شہ سواروں تک کوئ
سب سے آگے ہے ترے در کا پِیادہ آج بھی
آپ کے علم وہنر کی روشنی کو دیکھ کر
درپہ ہیں شمش وقمر، گردن نِہادہ آج بھی
آپ نے رسوا کیا نجدی کو ہر میدان میں
ہے وہی ذلت برائے نجد زادہ آج بھی
مل نہ مایا تیرے جیسا ماہرِ فن تیرے بعد
خالی ہے تدریس کا تیرا وِسادہ آج بھی
ہے سخاوت تیری اے صدر الشریعہ، لاجواب
پاتے ہیں سائل ، تمنا سے زیادہ آج بھی
اک فریدی پر ہی کیا موقوف، فَیَّاضی تری
پی رہے ہیں سب تری حکمت کا بادہ آج بھی