یہ کیسی شب ہے

سِواے موت ، کوئ بھی خبر نہیں آتی
یہ کیسی شب ہے کہ جس کی سحر نہیں آتی

حیات سخت ہے اور موت بھی نہیں آساں
کسی طرف سے بھی راحت نظر نہیں آتی

شکار کرتی ہے اُس کا ، خود اب مسیحائی
حیات لَوٹ کے کیوں اپنے گھر نہیں آتی

کہیں پہ خار ، کہیں آگ سے بھرا رستہ
یہ کیا ہوا کہ گلوں کی ڈگر نہیں آتی

ضرور کی ہے بڑی سرکشی درختوں نے
بہارِ رحم ، جو سٗوے شجر نہیں آتی

ہماری سنگدلی ہے کہ اتنے جرم کے بعد
لہو کی موج لیے ، چشمِ تر نہیں آتی

زمانہ اپنی خطاؤں پہ سر جھکا لیتا
تو یوں زمیں پہ قیامت اتر نہیں آتی

پڑے ہیں رنج و مصیبت کے سیکڑوں پردے
خوشی کی روشنی ، ہستی کے در نہیں آتی

خلاف لہروں سے لڑتے جو متحد ہوکر
ہماری کشتی کے اندر بھنور نہیں آتی

یہی حِصار ہے رنج و الم سے بچنے کا
جہاں درود ہے ،، مشکل اُدھر نہیں آتی

فریدی اشکِ ندامت سے آبیاری کر
گُلِ دعا میں جو بٗوے اثر نہیں آتی

Leave a Comment