اٹھا علم حسین کا

اٹھا علم حُسین کا، اٹھا علم حُسین کا 
ستم کی جلتی آگ پر، وہ شان سے کھڑا رہا
وہ اپنی جاں ہتھیلی پر لیے ہوئے ڈَٹا رہا
جفا کے تیر کھا کے بھی وہ صبر سے اَڑا رہا
ہے جراتوں کی راہ پر قدم قدم حسین کا
اٹھا عَلَم حُسین کا، اٹھا عَلَم حسین کا … 
ہزار آندھیاں چلیں، ہزار امتحاں ہوئے
وہ تھام کر چراغِ حق، سبھی کو پار کرگیے
نہ توڑ پائ موت بھی، ارادے اور حوصلے
کسی ستم کے آگے سَر ہوا نہ خم حسین کا
اٹھا عَلَم حسین کا ….
حسین ہر زمانے میں ضیائے انقلاب ہیں
وہ چرخِ حُرِّیت کے ایک تازہ آفتاب ہیں
نہ ڈوبےگاجو تا ابد، وہ ایسے ماہتاب ہیں
کسی سے ہوگا نور اب کبھی نہ کم حسین کا
اٹھا علم حسین کا ….
وہ یاد گارِ مرتضیٰ، وہ عظمتِ بُتول ہیں
وہ گلشن نبی کے ایک بے مثال پھول ہیں
خدا کو ان سے پیار ہے وہ مرضیِ رسول ہیں
ہر ایک رنگِ زندگی ہے محترم حسین کا
اٹھا علم حسین کا …. 
رواں دواں جو مومنوں کے خون میں یہ جوش ہے
جفا ہزار ہے مگر، وفا کفن بَدوش ہے
دلوں میں حق کے واسطے جو عشقِ سَرفروش ہے
کِیَا ہوا ہے سارا جذبہ یہ رقم حسین کا
اٹھا علم حسین کا ….
ہیں سجدے میں حضور اور پُشت پر حسین ہیں
اٹھایا سر نہ آقا نے یہ سوچ کر حسین ہیں
دلِ رسولِ پاک کو عزیز تر حسین ہیں
خیال کتنا رکھتے تھے شہِ امم حسین کا
اٹھا علم حسین کا … 
صداقتوں کی راہ پر، جو عزم لے کے چل پڑے
اندھیروں میں سحر کا نور بن کے جو نکل پڑے
حیات کے صدف میں جس سے گوہرِ عمل پڑے
وہی زباں حسین کی وہی قلم حسین کا
اٹھا علم حسین کا ….
بروزِ حشر خلد میں وہ ہمکو لے کے جائیں گے
وہاں بھی یاحسین کی صدائیں ہم لگائیں گے
خود اُن کے سامنے ہم انکی منقبت سنائیں گے
بہشت جسکو کہتے ہیں وہ ہے حرم حسین کا
اٹھا علم حسین کا …
غموں کی رُت ہے اور یادِ کربلا ہے چارسو
حسینی ذکر کا چمن مہک رہا ہے چار سو
کرم کا ابر جھوم کر برس رہا ہے چارسو
ترانہ پڑھ رہی ہے میری چشمِ نَم حسین کا
اٹھا علم حسین کا ….
شجاعتوں کے تاجور مرے حسین کو سلام
نبی،علی وفاطمہ کے نور عین کو سلام
جہانِ حق کےرہنما،دلوں کے چین کو سلام
الٰہی اوج پر ہو ذکر دم بدم حسین کا
اٹھا علم حسین کا ….
حسینیو چلو اٹھو،ہوا کےرخ کو موڑ دیں
ستم کےسارے سلسلےکو آؤ مل کے توڑ دیں
بچھڑ گیےجو ہم سے، آؤ اُن دلوں کو جوڑ دیں
نبھائیں طرزِ زندگی، فریدی ہم حسین کا
اٹھا علم حسین کا ….

Leave a Comment