سلام اے مرشدِ کامِل ، سلام اے شیخِ لاثانیی
سلام اے سیدی تاج الشریعہ فیضِ یزدانی
جمالِ حجۃ الاسلام ، عکسِ مفتئ اعظم
سلام اے غوث کے نائب ، رضا کے ظِلِّ روحانی
سجے ہیں چَرخِ حکمت پر ترے افکار کے تارے
دلوں کو نور دیتی ہے ترے جلوؤں کی تابانی
علومِ اعلیٰ حضرت کا خزینہ تیرا سینہ ہے
سلام اے سیدی اختر ، ضیاے بزمِ عرفانی
اکابر نے تجھے اپنے کمالوں کا امیں مانا
اصاغر نے تری دہلیزِ فن پر رکّھی پیشانی
عدو کی دشمنی سےتیرے چرچے گھٹ نہیں سکتے
تری عظمت ہے پائندہ ، تری شوکت ہے لافانی
سلام اے وہ کہ مانا فخرِ ازہر ، جس کو ازہر نے
سلام اے وہ ، جسے حاصل ہوئ کعبے کی مہمانی
ترے الفاظ ہیں یا معرفت کے لعل و گوہر ہیں
ادب کے سَعدئِ دوراں، سخن کے جامئ ثانی
قدم اٹّھے تو کوہ و بحر نے بھی دے دیا رستہ
جہاں پہنچے تو اُس خِطّے پہ برسا فضلِ ربانی
تری نسبت کو اپنائے ، جسے اعزاز پانا ہو
ترے دامن سے لگ جائے، جسے قسمت ہو چمکانی
ترا نقشہ نگاہِ دہر نے محفوظ رکھا ہے
ترے حُسنِ اَتَم کی آج بھی دنیا ہے دیوانی
سلام اے مَردِ مومن ، رہبر حق ، پاسبانِ دیں
ترے حصے میں آئ باغِ ملت کی نگہبانی
بچالو ہم کو آکر وقت کی بیداد لہروں سے
سفینہ بیچ دریا میں ہے، اور آئی ہے طغیانی
ترے گھر کی بہاریں دن بدن ہوں اوج پر شاہا
مہکتا ہی رہے یہ علم و فن کا باغِ نورانی
فریدی سے نہ ہو پایا رقم یہ نغمۂ مِدحت
خوشا تیرے فضائل ،، آہ اپنی تنگ دامانی