جہیز کے لالچی

عائشہ اور اُس جیسی مظلوم بیٹیوں کے درد و غم پر بیتاب دل کے آنسو
اور لالچی و ظالم شوہروں کی مذمت

سمجھ لو اپنی خود داری کے وہ مَرگھٹ پہ رہتا ہے
کٹورا لے کے جو سُسرال کی چوکھٹ پہ رہتا ہے

سنو ! لالچ کے لب دریاؤں میں بھی رہتے ہیں پیاسے
قناعت کا قدم خشکی میں بھی پنگھٹ پہ رہتا ہے

ہے بیوی کی محبت اور وفا ہی راحتِ ہستی
نہیں تو آدمی بس درد کی کروٹ پہ رہتا ہے

تری بیٹی ، بہن ، پر بھی جفائیں ہوں تو کیسا ہو
سگِ دولت بتا ! کیوں اِتنی غُرّاہٹ پہ رہتا ہے

سَتائ جاتی ہیں جب بیٹیاں سسرال میں اپنی
جگر ماں باپ کا ، دروازے کی آہٹ پہ رہتا ہے

جہیز ایسی وبا ہے جس سے پھیلے ہیں کئ فتنے
سماج اپنا ، اِسی سے وقت کی تلچھٹ پہ رہتا ہے

ہے جن ماں باپ کے گھر عائشہ سی غمزدہ بیٹی
تو آنسو نقش ، اُن کے ماتھے کی سَلوَٹ پہ رہتا ہے

ستاتے ہیں جو اپنی بیویوں کو، اہلِ خانہ کو
فریدی کا قلم ایسوں سے جَھلّاہٹ پہ رہتا ہے

Leave a Comment