مخالف غمزدہ ہے اور مُحِب شاداں بریلی کا
مسلسل تاب پر ہے جلوۂ عرفاں بریلی کا
اندھیروں سے کہو ، اُن کی رسائ ہو نہیں سکتی
چراغِ علم سے خالی نہیں اَیواں بریلی کا
کوئ نوری ، کوئ اختر ، ہمیشہ ہے تجلی پر
رہے گا تا ابد چرخِ ہنر تاباں بریلی کا
نبی کا عشق دے کر ، بد عقیدوں سے بچایا ہے
یقینا اہلِ حق پر ہے بہت احساں بریلی کا
ہر اک مشکل میں کی ہے رہنمائی اہلسنت کی
دِوانہ کیوں نہ ہو ہر صاحبِ ایماں بریلی کا
کھڑا ہے شان سے عشقِ رسالت کا عَلَم لے کر
فروغِ دینِ حق ہے مقصدِ ذیشاں بریلی کا
نہ کیوں ہو مرکز اہلسنن وہ شہرِ بابرکت
ہے اُس میں جلوہ گر احمد رضا سلطاں بریلی کا
کُھلے ہوں یا چھپے دشمن ، سبھی پر ہے نظر اس کی
عقیدے کا تحفُّظ ہے سدا عنواں بریلی کا
اُنھیں جانا ، اُنھیں مانا نہ رکّھا غیر سے رشتہ
نبی کی شان و عظمت پر ہے دل قرباں بریلی کا
ہوئے اس کی جلن میں خشک ، کتنے ہی گل و گلشن
مگر اب بھی چمن ہے شان سے خنداں بریلی کا
حسد سے ہوگیے مقبول بھی مردود کی صف میں
وفا میں ذرہ بھی ہے نَیَّرِ تاباں بریلی کا
فریؔدی آبروے حق ہے اس گلزار کی خوشبو
محبت کرنے والا ہے سدا نازاں بریلی کا