اپنا گریبان

ہم متحد رہیں گے، تو غالب رہیں گے ہم
ورنہ ہمیشہ خاسر و خائب رہیں گے ہم

پیشِ نظر ہو قوم ، تو آئے وقار و شان
کب تک مفادِ ذات کے طالب رہیں گے ہم

ٹکڑوں میں بٹ کے خواری ہی خواری رہےگی پھر
گر شخصیت پرستی پہ راغب رہیں گے ہم

تنقیدبھی قبول ہو ، مدحت کے ساتھ ساتھ
کب تک فقط برائے مناقب رہیں گے ہم

اِس طرح رفتہ رفتہ سنور جائے گی حیات
خود اپنے نفس کے جو محاسب رہیں گے ہم

اوقات سے بڑھیں گے تو پھیلے گا انتشار
ہوگا سُکوں، جوحسبِ مراتِب رہیں گے ہم

اخلاص ہی سے عظمتِ ملت کا ہے فروغ
مٹ جائیں گے جو بہرِ مَناصِب رہیں گے ہم

اپنوں کا ہاتھ تھام کے نکلے نہ ہم اگر
ظلم و ستم کے یونہی مصاحب رہیں گے ہم

پھرنصرت الٰہی نہ دے گی ہمارا ساتھ
جب دُور از فرائض و واجب رہیں گے ہم

سب کو سفر میں ساتھ نہ رکھا تو پھر سدا
چلتے یونہی بسوئے مصائب رہیں گے ہم

ہم عزتِ رسول کے جب تک ہیں پہریدار
خاکِ زمیں پہ بن کے کواکب رہیں گے ہم

ہر سمت ہیں یزید کے لشکر تو کیا ہوا ؟
ہرحال میں حسین کی جانب رہیں گے ہم

ہوں گے نہ اے فریدی جو ہم یک زبان و دل
پھر نقشۂ عروج سے غائب رہیں گے ہم

Leave a Comment