لکھا ہے شجاعت کے قلم سے ترا آئین
اے خاک فلسطین
جان بازی و جرأت کا سبق ہے تری تلقین
اے خاک فلسطین
شعلوں پہ قدم رکھ دیئے، رستہ نہیں چھوڑا
ہمت سے جفاؤں کے ہر اک بند کو توڑا
خطروں سے نڈر، تیری فضاؤں کے ہیں شاہین
اے خاک فلسطین
مٹی تری ہم سب کی محبت کا فلک ہے
تجھ میں شہ کونین کے قدموں کی مہک ہے
آقا نے بڑھائی ہے تری عزت و تمکین
اے خاک فلسطین
القُؔدس جو انعام الہی ہے مکمل
پیشانی مِّلت کا جو ہے قبلۂ اول
وہ در ہے ترے مصحف برکات کی یاسین
اے خاک فلسطین
یاد آتا ہے نبیوں کی جماعت کا وہ منظر
کیا خوب تھا آقا کی امامت کا وہ منظر
معراج کی شب آئے جو اقصٰی میں شہ دین
اے خاک فلسطین
تجھ پر کوئی آنچ آئے تو ہوتا ہے ہمیں غم
ہر قلب مسلماں ، ترے دشمن سے ہے برہم
مومن کے لئے تیری خوشی باعث تسکین
اے خاک فلسطین
طوفاں سے لڑا، ظلم کی لہروں سے نہ ہارا
ایوؔبی نے تیرے رُخ ہستی کو سنوارا
اے کاش پلٹ آئے وہ سلطانِ سلاطین
اے خاک فلسطین
ہیں موت سے بےخوف ، تری گود کے پالے
پیچھے نہیں ہٹتے ہیں، کبھی تیرے جِیالے
رستہ ہو کٹھن ، چاہے کوئی ضرب ہو سنگین
اے خاک فلسطین
اپنوں نے دیئے زخم، تجھے غیروں سے بڑھکر
ورنہ کِسے ہمت تھی کہ یوں آتا وہ چڑھ کر
ہم ہیں تری لاچاری یہ شرمندہ و غمگین
اے خاکِ فلسطین
بکھرے کئی حصوں میں ترے جسم کے پارے
دیکھے نہیں جاتے ، یہ المناک نظارے
جامہ ہے شہیدوں کے لہو سے ترا رنگین
اے خاک فلسطین
اک کا رواں تیرے لئے لڑتا ہی رہے گا
اک روز دمِ کفر پہ بھاری وہ پڑے گا
سہرا ہے تری فتح کا یہ قول شہ دین
اے خاک فلسطین
غم اتنا ہے، لفظوں سے عیاں ہو نہیں سکتا
دکھ تیرا ، فریؔدی سے بیاں ہو نہیں سکتا
اے کل کی سخی ! آہ تو ہے آج کی مسکین
اے خاک فلسطین