حضور تاج الشریعہ کے وصال پر آنسوؤں اور آہںوں سے لبریز خراج عقیدت
اہلسنت کے روحِ رواں چلدیئے
آہ دنیا سے اختر میاں چلدیئے
رہ گیا خالی خالی ہمارا وجود
لیکے وہ ساری تاب وتواں چلدیئے
ان کا جانا، ہمیں کرگیا ہے نڈھال
ساتھ لیکر وہ، ہم سبکی جاں چلدییے
اِس خبرسےدل وجاں پہ بجلی گری
چھوڑکر وہ ہمیں ناگہاں چلدییے
بیس جولائ اور پانچ ذیقعدہ ہے
وہ شبِ شنبہ، سوئےجناں چلدیئے
جنکےجلوؤں سےتھا اہل ایماں کو چین
جان ودل کےوہ راحت رساں چلدیئے
عالَمِ سُنیت آج سَکتے میں ہے
اہلسنت کے شاہِ شہاں چلدیئے
کپکپاتےہیں لب اور زباں گُنگ ہے
آہ کیسےکروں میں بیاں "چلدییے”
اشک رکتے نہیں دل ٹھہرتا نہیں
ڈھونڈھتی ہے نظر وہ کہاں چلدیئے
اے خدا صبر کی مجھکو توفیق دے
میرے مرشد مرے مہرباں چلدیئے
تازگی جن سےتھی باغ اسلام میں
آہ صـد آہ ، وہ باغبـاں چلدیئے
پَرتَوِ نوری ، عکسِ کمـالِ رضا
رضویت کےوہ مَہرِ عیاں چلدیئے
خوف کھاتے رہے جن سے اعدائے دیں
قوم و ملت کے وہ پاسباں چلدیئے
رخ زمانے کا ان کی طرف ہو گیا
وہ جدھر چلدیئے وہ جہاں چلدیئے
کیسی ہستی تھی وہ کیسا کردار تھا
ہےجہاں بھرمیں آہ و فُغاں ، "چلدیئے”
محفلِ اہلِ حق سونی سونی ہوئ
کر کـے وہ بزم آرائیاں ، چلدیئے
رہ گئـے ہم تڑپتـے سِسَکتـے ہوئے
لیکے وہ سارا چین واماں چلدیئے
کہہ رہے ہیں یہ تاج الشریعہ ہمیں
سب گئےہیں جہاں، ہم وہاں چلدیئے
آؤ جانے سے پہلے ہمیں دیکھ لو
پھر نہ کہنا کہ اختر میاں چلدیئے
اُنکےغم میں نہ کیوں روئے چشمِ فلک
عِلـم و اِدراک کـے آسمـاں چلدیئے
قبر سےحشر تک نور بانٹیں گے وہ
ہوکےدنیا میں وہ ضو فشاں چلدیئے
فکر ہـے غمزدہ، اور قلم ہے اداس
کیسـےلکّھوں وہ آرامِ جاں چلدیئے
بات سچ ہـے مگر دل نہیں مانتا
کہہ نہ پائےگی میری زباں، "چلدیئے”
سَـر نفی میں فـریـدی ہِلاتا رہا
سب یہ کہتے رہےہاں وہ ہاں چلدیئے
از محمد سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی، بارہ بنکوی مسقط عمان