یہ کیسا نظام آزادی

آزادی اور موجودہ حالات کی منظر کشی کرتی ہوی نظم 

فریبِ اہلِ سیاست ، نظامِ آزادی
جدید قید ملی ہے بنامِ آزادی

ہمیں وہ پھیردیں جب چاہیں جس طرف چاہیں
ہے چند لوگوں کے ہاتھوں ، زِمامِ آزادی

گَلا کسا ہے مگر سانس چلنے پر مسرور
بُنا گیا ہے کچھ اِس طرح دامِ آزادی

خراب حال مسلسل ، کسان اور مزدور
وزیر و شاہ و غنی ، شادکامِ آزادی

حقوق سلب ، زمیں تنگ ، عزتیں پامال
یہ حُرّیَت ہے ، کہ ہے اِنہِدامِ آزادی

یہ بھیدبھاؤ ، یہ نفرت کی سرحدیں باہم
ہیں منقسم کئ در پر ، غلامِ آزادی

بندھا بندھا سا تَخیل ، ڈرا ڈرا سا قلم
کئ حدوں میں ہے محصور، گامِ آزادی

بہایا جائے گا انصاف کا لہو کب تک
سحر میں بدلے گی کس روز شامِ آزادی

کوی بھی پھول نہ خار الم سے ہو زخمی
خـدایا ہنـد ہو، دارالـسـلامِ آزادی

جہاں میں سب سےحسیں، سب سے انقلاب آور
مرے نبی نے جو بخشا پیام آزادی

زمانے والو ! نظر ڈالو فتحِ مکہ پر
کہیں نہ پاؤ گے وہ اہتمام آزادی

حدودِ ملک و وطن ، مومنوں کی زنجیریں
حِصارِ رنگ و نسَب ، اختتام آزادی

اگر عروج وترقی کی راہ چلنی ہے
تو لازمی ہے وطن میں قیام آزادی

کسی کے دست و زباں سے کسی کو رنج نہ ہو
ہمیشہ سب کریں یوں احترامِ آزادی

جہاں نحیف صدائیں پہنچ نہ سکتی ہوں
نہ اتنا اونچا کرو یارو بامِ آزادی

زمینِ ہند ، مسلماں پہ تنگ کر کے تم
عزیزو لیتے ہو کیا انتقامِ آزادی ؟

بہارِ امن و اماں کو نگل رہے ہیں فساد
بتاؤ کیا ہے یہی ؟ انتظامِ آزادی

کلیجہ چھلنی ہے، پَر ساتھ سب کا دینا ہے
چلو فریدی ! پیو تم بھی جامِ آزادی

Leave a Comment