یادِ نظام الدین اولیاء

محبوب الٰہی ، سلطان المشائخ ، بہارِ چمنستانِ سادات ، گل باغِ چشتیت ، خلیفہ و تلمیذِ گنج شکر ، مخزن علم و عرفان ، زری زر بخش ، حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی شان
وصال 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھج دہلی انڈیا

تم کو اگر سمجھنا ہے جِیوَن نظام کا
خُسرو کی آنکھ سے کرو دَرشن نظام کا

مرشد کے آگے سارے نظارے جہاں کے ہیچ
یوں اُن کی روح سے ہوا بندھن نظام کا

حضرت کا آستانہ ، عطاے نبی کا باغ
فِردوسِ اہلِ عشق ہے مَسکَن نظام کا

نبضِ حیات میں رَگِ حسنین کا لہو
نسبت کا رنگ کتنا ہے روشن نظام کا

وہ جلوہ گر ہیں دلّی کے روحانی تخت پر
جَپتی ہے نام ، وقت کی دھڑکن نظام کا

درگاہِ پاک، جن و بشر کی طواف گاہ
منزل ملائکہ کی ہے ، آنگن نظام کا

ہیں جس میں "بختیار” و "فرید” و "مُعیں” کے رنگ
مجموعۂ فیوض ہے گلشن نظام کا

ہے اُن کے دَم سے نور ، "چراغِ نَصیر” میں
لبریز ہے اجالوں سے مَخزَن نظام کا

دن رات سوزِ عشقِ نبی میں جلے ہیں وہ
کردار ، تَپ کے بن گیا کُندَن نظام کا

چشم جہاں کا نور ہے دہلیز کی چمک
برکات سے بھرا ہے نشیمن نظام کا

قاٸم ہے اب بھی اُس گلِ عرفاں کی تازگی
جَوبَن نہ کم ہوا ، پَسِ مُردن نظام کا

فَقرِ "جنید”، مستٸِ "منصور” کے ہیں جام
میخانۂ سُلوک ہے تن من نظام کا

جس پر سجی ہے عظمتِ ملت کی کہکشاں
چرخ تَجلّیات ہے مَدفَن نظام کا

کردار پنجتن کی عطاؤں کا شاہکار
ہر رخ ہے لا جواب یقینا نظام کا

جس سے بہارِ چشت ، جہانگیر بن گٸ
روحانیت کا باغ ہے اَحسن نظام کا

دیوانو ! آؤ دستِ عقیدت سے تھام لو
پروانۂ نجات ہے دامن نظام کا

ذرے ہوئے قریب تو مہتاب بن گیے
نقشِ حیات اِتنا ہے روشن نظام کا

سلطان اولیا ہیں، وہ شیخ الشیوخ ہیں
اونچا ہے بزم دیں میں سِنگھاسَن نظام کا

ہم سب کے کام آئیں گے وہ آخرت میں بھی
شاہوں کا یہ نہیں ، یہ ہے بندھن نظام کا

اپنے، پراے ، سب پہ لٹائے کرم کے پھول
گُن گارہے ہیں شیخ و برہمن نظام کا

سَر پر ہے اُس غنی و سخی کا یدِ کرم
ہم کھا رہے ہیں آج بھی بھوجَن نظام کا

روشن ہوا فریدئِ خَستہ سخن کا دل
دیکھا جو چشمِ فکر نے دَرپن نظام کا

Leave a Comment