روتے ہوئے مسجد کی طرف دیکھ رہا ہوں

جملہ مسلمانوں کے دل کی آواز
بطور خاص یہ نظم اُن لوگوں کی نذر جو تراویح پڑھنے پڑھانے، یا دیگر نمازیں ادا کرنے مسجد نہیں جا پا رہے ہیں

یارب تری رحمت سے طلبگارِ عطا ہوں
امید پہ پھیلائے ہوئے دستِ دعا ہوں

رمضاں میں بھی، ہم سے ہیں خفا اِس کی بہاریں
روتے ہوئے مسجد کی طرف دیکھ رہا ہوں

دل ڈھونڈتا ہے ذکر وتلاوت کے وہی رنگ
ارمانِ رفاقت لیے ، مائل بصدا ہوں

یاد آتے ہیں رمضان گزشتہ کے ترانے
خاموشئ اِمروز پہ صَد آہ و بُکا ہوں

محرابِ تراویح سے دوری پہ ہیں سو دُکھ
افسوس ، میں تنہائ کے گوشے سے بندھا ہوں

اُمّیدِ عنایات کا دامن نہ چُھٹے گا
جس حال تو رکّھے، میں راضی بَرَضا ہوں

” اللّهُ لَطیفٌ بِعِبادِہ ” پہ نظر ہے
مانا کہ خطاوار ہوں عاصی ہوں بُرا ہوں

کونین ترے رحم کے مِحوَر پہ ٹِکے ہیں
کتنی مری اوقات ہے، میں کون ہوں کیا ہوں

ایسا ہو تو پھر پیکرِ ہستی کی ہے معراج
سائل بَہ غُبارِ قدمِ شاہِ ھُدٰی ہوں

نصرت کی توقّع سے غموں میں بھی ہے آرام
جو بُجھ کےبھی روشن ہے میں اک ایسا دیا ہوں

مجھ نادم و رنجیدہ فریدی پہ کرم کر
اَشکوں کے گُہر لے کے ترے در پہ پڑا ہوں

اِمروز .. آج ، موجودہ وقت

Leave a Comment