مل کر ہے بچانا یہ چمن

تازہ حالات کے تناظر میںانسانیت کے خیر خواہوں کے نام ، ایک پیغام

ہے خزاؤں کی عداوت کا نشانہ یہ چمن
ہم کریں رنگِ اُخوّت سے سُہانا یہ چمن

شَرپسندوں کا ہے ایوانِ وطن پر قبضہ
سب وفاداروں کو مِلکر ہے بچانا یہ چمن

آہ ، کوی تو یہ شعلوں کی سیاست روکے
باغباں چاہتے ہیں خود ہی جلانا یہ چمن

آج ہم اپنی ہی غفلت سے ہوئے ہیں کمزور
خودہمیں جاگ کے،لازم ہے جگانا یہ چمن

یہ سِسکتے ہوئے منظر نہیں دیکھے جاتے
ہمکو راحت کے گلوں سے ہے سجانا یہ چمن

نہ ہوں روتی ہوی مائیں، نہ بِلکتے بچے
قیدِ آزار وستم سے ہے چُھڑانا یہ چمن

ہر عدالت میں ہو انصاف کی بالا دستی
سب کو مِل کر ہے اِسی رنگ میں لانا یہ چمن

لاکھ، پھولوں کی زباں پر ہوں تشدد کے حصار
گائےگا جرأت و ہمت کا ترانہ یہ چمن

منہ کی کھائیں گے جو ہیں امن و محبت کے خلاف
فیضِ خواجہ سے ہے تاحشر، توانا یہ چمن

وقت آیا تو لہو دے کے اِسے سینچا ہے
رنگِ ایثار و وفا سے ہے یگانہ یہ چمن

دیکھ لو بسمل واشفاق کی سیرت پڑھ کر
ہے شجاعت کے جواہر کا خزانہ یہ چمن

ہم سبھی اہلِ وفا، عہد کریں آج کے دن
ہونےدینگے نہ جـفاؤں کا ٹِھکانا یہ چمن

اِس کے ہر پھول میں ہو علم و ہنر کی خوشبو
ہم کو ہے روضۂ تعلیم بنانا یہ چمن

اے فریدی ! ہوں محبت کے ترانے ہر سَمت
کاش پا جائـے وہی سـاز پرانا یہ چمن

Leave a Comment