اہلِ مغرب کی روایتوں میں ایک دن ماں کے نام مخصوص ہے ، یعنی حیات انسانی کی سب سے عظیم ہستی کے نام محض ایک دن
دنیاوی عیش و عشرت میں کھوئے ہوئے انھیں کیا پتہ کہ والدین کی اہمیت کیا ہے
ماں .. جس کے پیروں میں اللہ نے جنت رکھی ہے ، ایک لڑکی ماں بنتے ہی کتنی بدل جاتی ہے اسکی ساری سوچ اور دنیا سمٹ کر ایک ننھی سی جان میں آجاتی ہے، وہ ہستی جو دنیا میں آپ کو سب سے پہلے اور اپنی آخری سانس تک پیار کرتی ہے ، محبت کا حقیقی پیکر .. جسکی گود دنیا کی سب سےمحفوظ جگہ ہے ، وہ پہلی معلمہ جو ہم کو اچھے برے کا سبق سکھاتی ہے ، دنیا کے نشیب و فراز سمجھا نے والی ہماری ماں، راتوں کی نیند، دن کا آرام قربان کرنے والی اور اپنی چھوٹی بڑی خواہشوں کو ہم پر قربان کرکے خوش ہونے والی ہماری ماں ..
ہزار تکلیفوں کے بعد،بغیر احسان جتائے ہمیں زندگی سے ملانے والی ہماری ماں ،،
کیا اس کے لیے سال کا ایک دن کافی ہے ؟
صرف ایک دن کے لیے اسے خاص ہونے کا احساس دلانا جس نے ہمیں ہر دن سب سے خاص سمجھا ، کیا یہ ٹھیک ہے ؟
ماں کے لیے تو ساری زندگی مخصوص ہونی چاہیے کیونکہ ماں کا احسان سب سےعظیم ہے
تو سال میں ایک دن نہیں بلکہ ہمارا ہر دن مدر ڈے ہونا چاہیے
ہرچیز کائنات کی سرشار ماں سے ہے
جوکچھ ہے اِس جہان میں سب پیار ماں سے ہے
ہستی کی خوبیوں کا خزانہ ہے اسکی گود
انسان میں بلندئ کردار ماں سے ہے
آنچل میں ہیں کرم کے ستارے جَڑے ہوئے
پُرنور زندگی کی شبِ تار ماں سے ہے
کہدو فلک سے اپنے اجالے سمیٹ لے
روشن ہماری ذات کا مینار ماں سے ہے
کرتی ہے وہ زمیں کے ستاروں کی پرورش
اے آسمان ! توبھی ضیا بار ماں سے ہے
ماں سرپہ ہاتھ رکھدے تو کِھل جائیں دل کے پھول
گلدستۂ حیات کی مہکار ماں سے ہے
جو کچھ ہے میرے پاس ، اُسی کا دیا ہے سب
اعزازِ سَر ، فضیلتِ دستار ماں سے ہے
کیسے ادا ہو اُس کی عطاؤں کا شکریہ
ہستی قدم قدم پہ گہربار ماں سے ہے
نَم اُس کی نہرِ جاں سے ہے صحراے زندگی
ہرشاخ، جسم وجان کی پھلدار ماں سے ہے
ملتا کہاں ، گلوں کو تبسم کا رنگ و نور
شادابئ چمن کا یہ اظہار ، ماں سے ہے
مخصوص کیسے ہوگا ” مَدرڈے” میں ایک دن
ہرصبح زندگی کی نمودار ماں سے ہے
اُس ذات کو نہ قید کرو ماہ و سال میں
سورج ہراک زمانے کو دَرکار ماں سے ہے
رُک جائیں وہ قدم تو ٹھہر جائے کائنات
سن لیجیے! کہ وقت کی رفتار ماں سے ہے
کیسی وفا پرست، طبیعت خدا نے دی
جو زخم دے وہ پھول کا حقدار ماں سے ہے
اُسکی دعا میں ہیں دمِ عیسٰی کی جھلکیاں
سویا ہوا نصیب بھی بیدار ماں سے ہے
بچوں کو نور دیتی ہے خود کو بجھا کے بھی
یہ حوصلہ، یہ صبر،یہ ایثار، ماں سے ہے
روشن ہے اُس کے عزم سے ہر رات کی جبیں
تاباں ہر ایک صبح کا رخسار ماں سے ہے
دیتا ہے اسکا دست حمایت بڑا عروج
ناکامیوں کا دشت بھی گلزار ماں سے ہے
طوفاں سے کھیلنے کا ہنر بخشتا ہے باپ
بحر الم میں صبر کی پتوار ماں سے ہے
خود دارئ پدر سے ہے بنیاد جسم و روح
تعمیرِ آشیانۂ افکار ، ماں سے ہے
زندہ اُسی کے دم سے ہے، رشتوں کا احترام
رَستہ نیاز و ناز کا ہموار ماں سے ہے
خودغرضیوں کا سودا ہے چاروں طرف مگر
دستِ جہاں، خلوص کا زردار ماں سے ہے
عزت نہ پاسکے گا کوئ ماں کوچھوڑ کر
وہ کم نصیب ہے کہ جو بیزار ماں سے ہے
کچھ بھی نہیں ہیں اُس کی عطا کے بغیر ہم
تنکا ہمارے قد کا گراں بار ماں سے ہے
بعدِ وصال بھی جو سہارا عطا کرے
ہر درد سے حصار کی دیوار ماں سے ہے
یارب ہماری ماؤں کو بخشش کا باغ دے
بیشک ہماری زندگی گلزار ماں سے ہے
ہو اُسکی روشنائ کی ہر بوند کو سلام
جس خامۂ و بیاں کو سروکار ماں سے ہے
میرا کمالِ فن ہے فریدی اُسی کا فیض
واللہ ، یہ روانئ اشعار ماں سے ہے