اے کَیب والو ! تمہیں ہم اگر نہیں منظور
سنو ! ہمیں بھی تمہاری نظر نہیں منظور
مٹا رہا ہے جو بھارت کی ایکتا اور پیار
وطن کے لوگوں کو وہ تاجور نہیں منظور
کھڑے ہیں سامنے، آجاؤ آزمالو ہمیں
ڈرانے والو تمہارا یہ ڈر نہیں منظور
یہاں پہ رہتے ہیں مِل کر ہر ایک دھرم کے لوگ
جدائی اِن میں ہمیں ذرہ بھر نہیں منظور
ہے تیری موت کا خنجر یہ بے تکی تقسیم
کہ دل تو پاس رکھا اور جگر نہیں منظور
یہ پھل تو دیتا ہے پر بھید بھاؤ رکھتا ہے
اِسے اُکھاڑو ! ہمیں یہ شجر نہیں منظور
فریب کھائے ہیں اِتنے کہ اب ہمیں ہرگز
تمہارا وعدہ، تمہاری خبر نہیں منظور
کسی کو لاکھ وہ روشن کرے، اجالا دے
ہمیں جو نور نہ دے وہ سحر نہیں منظور
رہیں گے بسمل و اشفاق سب یہیں مِل کر
کوئی بھی پھول اِدھر اور اُدھر نہیں منظور
وہ جان دے کے بھی انگریز کو یہ بول گئے
تمہارا راج ہمیں ہند پر ، نہیں منظور
کسی پہ پھول، کسی پر جو آگ بن جائے
فریدی ہم کو کبھی وہ ڈگر نہیں منظور