تازہ ہیں فطرت کے شجر، قربانی سے
زندہ ہے اقبالِ بشر قربانی سے
سوئے ہوں جس وقت شبِ غفلت میں ضمیر
نازل ہو جاتی ہے سحر قربانی سے
کرب و بلا سے اب تک دنیا روشن ہے
جاگ اٹھے سارے منظر قربانی سے
بوئے گل شبّیر سے مہکا ہے عالم
نکھرا گلزار حیدر قربانی سے
رب نے عطا کی عید الاضحٰی کی سوغات
ہم پہ کھلا ہے فیض کا در قربانی سے
نسبت ہو گئی جب پیغمبر سے اُن کو
عظمت پا گئے شاۃ و بقر قربانی سے
گلشنِ ملت میں ہے، رنگ اسماعیل
باغ شریعت میں ہیں ثمر قربانی سے
اُن کی سیرت نقش ہے لوح عالم پر
یاد ہیں اب بھی پسر، پدر قربانی سے
زمزم ہے اک جلوہ عزم و ہمت کا
چمکی ہے شانِ مادر قربانی سے
روحِ جہاں زمزم سے ہوتی ہے سیراب
نکلا، یہ حق کا ساگر قربانی سے
ذوقِ شہادت، سب میدانوں میں جیتا
حق نے پائی، فتح و ظفر قربانی سے
مقتل میں بے خوف مجاہد کود پڑے
ٹوٹ گئی باطل کی کمر قربانی سے
نور کے آگے، کب یہ ظلمت ٹھہری ہے
ٹھنڈے ہیں باطل کے شرر قربانی سے
ظلم کی آندھی، جب جب دنیا میں آئی
ختم ہوا ظالم کا سفر قربانی سے
مومن کی فطرت میں، شجاعت کے جوہر
لگتا ہے کفار کو ڈر قربانی سے
فن کی عمارت، بنتی ہے رفتہ رفتہ
ہوتا ہے تعمیر، ہنر قربانی سے
ڈوب گئے ماں باپ کی ہستی کے سورج
بچوں میں چمکا ہے قمر قربانی سے
اس میں فریؔدی، پنہاں ہے معراج حیات
بنتے ہیں ذرّے بھی گہر قربانی سے