جفا سے اہلِ وفا کا بیاں نہیں بدلا
بلالِ وقت کا رنگِ اذاں نہیں بدلا
سفیرِ حق سے دغا ، فطرتِ روافض ہے
مکاں کوئ بھی ہو،اِن کا نشاں نہیں بدلا
لٹی ہے وقت کے کوفے میں پھرسے مہمانی
زمیں بدل گئ ، پر میزباں نہیں بدلا
ہلالِ چرخِ بقا اے شہید اسماعیل
قضا کے بعد بھی تیرا جہاں نہیں بدلا
ہے فیضیابِ محرم تری شہادت بھی
حسینی قرب کا یہ سائباں نہیں بدلا
عدوے دیں نے ہزاروں ستم کیے پھر بھی
براے حق، ترا عزمِ جواں نہیں بدلا
خریدنے کی تو کوشش بہت ہوئ لیکن
خودی نے اپنا کبھی آستاں نہیں بدلا
مِلے فرؔیدی ، کئ کربلاؤں کے شعلے
حسینیوں کا مگر کارواں نہیں بدلا