جہاں جہاں بھی مُنور ہیں جس کسی کے چراغ
وہ سب ہیں صدقۂِ پیدائشِ نبی کے چراغ
بُجھا سکو تو بجھادو یہ مہر و ماہ و نجوم
اے نجدیو ! یہ ہیں میلاد کی خوشی کے چراغ
جہاں میں آگیا بخشش کرانے والا رسول
جلائیں کیوں نہ گنہگار آج گھی کے چراغ
نبی کے نور کی دھڑکن اگر نہیں پاتے
جلے نہ ہوتے دوعالم کی زندگی کے چراغ
نظر کے ہوتے ہوئے بے نظر تھی یہ دنیا
دییے نبی نے ہدایت کی روشنی کے چراغ
ملی جہاں کو بصارت بھی اور بصیرت بھی
دلوں میں رکھ دییے آقا نے، آگہی کے چراغ
بغیر عشقِ نبی ، رد ہیں طاعتوں کے دییے
قبول ہوتے ہیں الفت کی بندگی کے چراغ
اگر ہے اُسوۂ سرکار پر سفر تیرا
قدم قدم پہ جلیں گے سلامتی کے چراغ
حضور آئیں تو مل جائے دولتِ عزت
بنیں امیر ، ہماری بھی جھونپڑی کے چراغ
دوبارہ تاکہ اہانت کی لَو اُبھر نہ سکے
گلے سے کاٹ دو آقا کی دشمنی کے چراغ
ہو جان و تن سے جو پہرہ نبی کی عزت پر
کبھی بجھیں گے نہ اُمَّت کی برتری کے چراغ
اگر طلب ہے کہ عزت کی روشنی میں رہو
نہ بجھنے دو کبھی آقا کی پیروی کے چراغ
ڈَھلے ہیں آنکھ کی صورت میں بہرِ دیدِ رسول
مُراد پائیں ہماری ثناگَری کے چراغ
فریؔدی اُن کی عطا نے سنبھال رکّھا ہے
لبوں کے طاق پہ جو ہیں سُخَنوَری کے چراغ