عید کی صبح

عید کی صبح۔۔۔۔ 

چشم تر اور دردِ جگر کے ساتھ

مجھ سے خوشیوں کی طرف آنکھ اٹھائی نہ گئی
اشک بہنے لگے ، بیچینی چھپائ نہ گئی

قوم کے بجھتے چراغوں کا الم ہے اِتنا
دل کی دہلیز اُجالوں سے سجائی نہ گئی

اک طرف قہر و وبا ، ایک طرف ظلم و ستم
روح وتن دونوں سے ہی عید منائی نہ گئی

قوم و ملت کے چمن پر ہیں خزاں کے حملے
ہم سے دیوار حفاظت کی اٹھائ نہ گئ

غم پہ غم کھائے ، کئی درد اٹھائے لیکن
متحد ہم نہ ہوئے، بیچ کی کھائی نہ گئی

اِس قدر گہری ہے دیوارِ انا کی بنیاد
عید کے روز بھی آپس کی جدائی نہ گئی

اِس لیے آگیا دہلیز پہ چڑھ کر دشمن
ہم سے ہی وقت پہ آواز لگائی نہ گئی

کچھ تو پہلےسے ہی برہم تھی حریفوں کی نظر
ہم سے بھی صورتِ اسلام دکھائ نہ گئی

جام کے ساتھ یہ میخانےبھی مٹ جائیں گے
مَے اگر جرأت و ہمت کی پلائی نہ گئی

مارے جائیں گے یوں ہی ، ہم سبھی تنہا تنہا
یک زباں ہوکے جو آواز اٹھائی نہ گئی

ہم ہیں پتھر جو کسی طَور پگھلتے ہی نہیں
آکے رمضان گیا، ہم سے برائی نہ گئی

اے فریدی جو مجھے دی گئی شیرینئِ عید
تلخئِ گردشِ حالات سے کھائی نہ گئی

Leave a Comment