احتجاج کا اثر چہرۂ حاکم پر

ہمارے نعروں کی آہٹ سے جھوٹ کا شیشہ
گرا زمین پہ اور ہوکے چٗور ،، ٹوٹ گیا

اُڑی اُڑی سی یہ رنگت، یہ چیختا لہجہ
بتارہا ہے کہ تیرا غرور ٹوٹ گیا

دوا کے بدلے اگر زخم دے مسیحا، تو
سمجھیے عقل مٹی، اور شعور ٹوٹ گیا

نئ سحر کے اجالے بلارہے ہیں ہمیں
شبِ ستم کے چراغوں کا نور ٹوٹ گیا

چُھپانا چاہ رہا تھا وہ اپنی بـے چینی
مگر حصارِ دلِ ناصَبُور ٹوٹ گیا

فریدی چہرۂ ظالم سے ہوگیا ظاہر
ہمارے نعروں سے اُس کا سُرور ٹوٹ گیا

احتجاج کے لیے اب تک جو نہ نکل سکے ، وہ بھی نکلیں، آگے بڑھیں ، آثار بتاتے ہیں سحر ہو کے رہے گی ان شاءاللہ تعالی

Leave a Comment