دلی کا اشارہ

مظلوم کی آہوں کا اثر بھول گئے تھے
کم ظرف محبت کی ڈگر بھول گئے تھے

جو قتل ہوئے ہیں وہ محبت کے تھے قاتل
نادان، جفاؤں کا ضَرَر بھول گئے تھے

سمجھے تھے کہ سورج پہ بھی ہے اُن کا تَسَلُّط
جو شب کے لٹیرے ہیں، سحر بھول گیے تھے

ٹھہرے ہوئے پانی کو دکھاتے تھے جو آنکھیں
بـے عقل وہ طوفاں کی نظر بھول گئے تھے

جو لوگ ہواؤں کی عنایت پہ تھے مغرور
وہ بادِ مخالف کے شرر بھول گئے تھے

پھر دیپ اُنہی اہلِ سیاست کے بجھے ہیں
جو الفت و تہذیب کے دَر بھول گئے تھے

ڈرنا نہ ٹھہرنا تو طبیعت میں ہے اُس کی
شاہین کی پرواز، یہ خَر بھول گئے تھے

امید ہے چَھٹ جائیں گے غفلت کے اندھیرے
وہ جاگ اٹھیں گے جو سحر بھول گئے تھے

یارب مرے بھارت میں محبت کی فضا ہو
پودے وہ کِھلیں، جو گُلِ تر بھول گئے تھے

جو راستہ دلّی نے دکھایا ہے وطن کو
اب وہ بھی چلیں گے جو سفر بھول گئے تھے

شاید کہ وہ، اب وقت کی ٹھوکر سے سنبھل جائیں
خوش فَہْم جو سب زیر و زَبَر بھول گئے تھے

جو لوگ ہَدَف سب کو بناتے تھے فریدی
خود اپنی حفاظت کا ہنر بھول گئے تھے

1 thought on “دلی کا اشارہ”

Leave a Comment