منقبتِ سلطان الہند ، سرکار سیدنا خواجہ غریب نواز اجمیری علیہ الرحمہ
کتابِ سیرتِ خواجہ کا ہر عنوان زندہ ہے
قیامت تک وہ کردارِ عظیم الشان زندہ ہے
نہ جانے کتنے آئے اور گیے موسم عداوت کے
مگر گلزارِ حق کا وہ گُلِ ریحان زندہ ہے
نچھاور ہو رہے ہیں وقت کے مَہر و مہ و انجم
چراغِ عظمتِ ہند الولی ہر آن زندہ ہے
نہ بھولیں گے کبھی ایمان والے ، ان کی قربانی
فصیلِ دل پہ اُن کا پرچمِ احسان زندہ ہے
حِصارِ ظلمتِ دوراں مُقَیَّد کر نہیں سکتا
کہ سورج کی طرح وہ گوہرِ عرفان زندہ ہے
یہ وہ دہلیز ہے جس پر جھکی رہتی ہے سرداری
فقیری میں شہنشاہی کی ایسی شان زندہ ہے
حکومت آج بھی ہے سرزمین ہند پر اُن کی
عطاے مصطفٰی کا چشتیہ اَیوان زندہ ہے
نہیں اُس آستاں پر امتیازِ مذہب و ملت
محبت بَٹ رہی ہے عظمتِ انسان زندہ ہے
نبی کے شہر کی خوشبو ہے اجمیری فضاؤں میں
جسے پا کر بہارِ باغِ ہندوستان زندہ ہے
بزرگوں کی عقیدت میں جبینیں جب تلک خم ہیں
زمانے میں ہماری قوم کی پہچان زندہ ہے
سکونِ قلب لو ، اے غمزدو اجمیر میں جاکر
مسرت بخش لمحوں کا وہاں سامان زندہ ہے
عطاے سیدِ کونین کے چشمے ابلتے ہیں
علیِّ مرتضیٰ کے لال کا فیضان زندہ ہے
وہاں جود و سخا کا اِس قدر ہے خوشنما منظر
یہی کہتے ہیں سب عاشق ، مرا عثمان زندہ ہے
حمایت پر ہے دائم ، ظلِ دستِ مہرباں اُن کا
کہ جس سے ہند کا ہر صاحب ایمان زندہ ہے
سِمَٹ سکتا ہے اب بھی ظلم کے تالاب کا پانی
سنو اے ظالمو ! اب بھی وہی امکان زندہ ہے
عیاں ہیں دامنِ کُہسار میں بطحا کے نظّارے
دلِ اجمیر میں طیبہ کا نخلستان زندہ ہے
جو اک مصرع بھی ہو جائے قبولِ خاطرِ اقدس
فریدی ! میں یہ سمجھوں گا مرا دیوان زندہ ہے