سخن کے گوہرِ یکتا و بے بدل بیکل
ترا فراق ہے دل سوز و جاں گَسَل بیکل
سکوت طاری ہے علم و ادب کی دنیا پر
کہ برق بن کے گری ہے تری اجل بیکل
جہانِ شعر و سخن تیری موت پر رویا
غموں سے ذہن و دل و جاں ہوئے ہیں شَل بیکل
خبر یہ سن کے ہیں مغموم "گیت اور دوہے”
تری جدائ سے رنجیدہ ہے غزل بیکل
خدا نے بخشی تھی نکتہ رسی تجھے ایسی
کیے ہیں عُقدۂ دشوار تو نے حَل بیکل
رضا کے فیض سے تو نے عروج پایا ہے
دیار فکر و نظر کا تو ہے بَطَل بیکل
تجھے ابھارا ہے "مصباحیت” کے جلوؤں نے
تو ہے علوم و معارف کا اک جَبَل بیکل
نگاہ حافظ ملّت نے وہ ضیا بخشی
ہے تابناک ، ترا گوہر عمل بیکل
کبھی نہ ٹھہرے گا دریا ترے تخیّل کا
کِھلا رہے گا تری ذات کا کنول بیکل
رہے گا نعت کےصدقے ترا چمن تازہ
نبی کے فیض کا ملتا رہے گا جَل بیکل
ترے کمال کا شہرہ ہے آج عالم میں
خدا کے فضل سے چرچا رہے گا کل بیکل
نہ کیوں فدا ہو جہان ادب ترے اوپر
عظیم تر ہے ترے فن کا ماحَصَل بیکل
بہت شفیق و ملنسار و خوش ادا ہستی
رہیں گے یاد ، ملاقات کے وہ پَل بیکل
ملے وہ راحت و آرام تجھ کو مرقد میں
پڑے نہ تیرے سُکوں میں کبھی خَلَل بیکل
بفیضِ نعت ،، خطائیں معاف ہوں تیری
کہ تجھ پہ رحم کرے ربّ لَم یَزَل بیکل
فریدی بھی ، ترے باغ ادب سے ہے محظوظ
ہیں بے مثال تری کاوشوں کے پھل بیکل