پیکرِ خلوص و محبت ، خادم قوم و ملت، شیداے مخدوم پاک ، محب اہل علم ، عاشق اولیاء ، فداے سیف رضا ، محبوب علماء ، مرحوم محمد آصف عرف ددّؔو نور اللہ مرقدہ ( ردولی شریف) کو خراجِ محبت ،
25 ربیع الثانی 1446ھج، 29 اکتوبر 2024 شب سہ شنبہ
سازِ دل چھیڑ کے، وہ بزمِ جہاں چھوڑ گیا
یاد کی آنکھ میں وہ اشکِ رَواں چھوڑ گیا
وہ گُلِ بزمِ وفا ، آہ وہ پیارا آصفؔ
لے گیا ساری بہار اور خزاں چھوڑ گیا
دل ہے بیتاب ، نظر ڈھونڈ رہی ہے اُس کو
بزمِ احباب میں وہ آہ و فغاں چھوڑ گیا
نم ہوئیں اُسکے لئے سیفِؔ رضا کی آنکھیں
دائمی ہجر کا وہ بارِ گراں چھوڑ گیا
بھول سکتا نہیں مخدومؔیہ اس کی چاہت
اپنی خدمات کو وہ نور فشاں چھوڑ گیا
علم والوں سے بڑی خاص لگن تھی اس کو
داستاں پیار کی، وہ دوستِ جاں چھوڑ گیا
مسلکِ حق پہ چلا، غیر کی پرواہ نہ کی
وہ جواں ، دیں کے لئے عزمِ جواں چھوڑ گیا
یاد رکھّے گی اسے صاؔبری مسجد کی فصیل
جس کے ایواں میں وہ خدمت کی اذاں چھوڑ گیا
اپنے غم بھول کے، جو سب کو خوشی دیتا تھا
وہ تبسم ، وہ دِلاسے کی زباں چھوڑ گیا
بہتے ہیں چشمِ ردولؔی سے لہو کے آنسو
آہ.. وہ اپنے نہ ہونے کا زیاں چھوڑ گیا
جب بھی آواز لگائی ، وہ پکارا لبیک
وہ وفاؤں کی نئ تاب و تواں چھوڑ گیا
باغِ فردوسِ بریں اُس کے صلے میں پائے
خدمتِ دیں کے وہ جونقش و نشاں چھوڑ گیا
دل فریدؔی کا نہیں مان رہا ہے اب بھی
لاکھ سمجھا کے کہا اِس کو ، کہ ہاں چھوڑ گیا