آہ سیدی شاہد میاں علیہ الرحمہ

آج  اکیس رجب المرجب ١٤٤٠ھجری،  مطابق انتیس مارچ ٢٠١٩ جمعہ مبارکہ کی صبح تقریبا تین بجے خلیفہ حضور مفتئ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی سید شاہد علی نوری قادری رضوی انتقال فرما گئے، 
 إنا لله وإنا إليه راجعون
یہ روح فرسا خبر سن کر عالم سنیت غمزدہ ہے
بلاشبہ حضرت کی ذات عکس مفتئ اعظم ہند اور مسلک رضاکی ترجمان تھی …
حضرت نے اپنی نگاہِ کردار ساز سے نہ جانے کتنے ذروں کو مہرومہ انجم بنادیا… 
تقریبا پندرہ سالوں سے حضرت کا مسقط آنا جانا تھا
میرے گھر ٹھہرتے اور مجھے خدمت کا بھر پور موقع ملتا تھا
حضرت بہت کم آرام فرماتے، تبلیغی مشاغل کے بعد اعمال و وظائف، تسبیح و مناجات میں تمام وقت گزارتے تھے، 
یقینا حضرت  کی زندگی نمونۂ  اسلاف تھی، جسم بظاہر کمزور  مگر جوانو‌ں سے زیادہ متحرک،
بصیرت و تدبر کے گوہر نایاب تھے، معاملہ فہمی ایسی کہ  بڑا سے بڑا مسئلہ حل کرنا  معمولی بات تھی … 
اللہ تعالی درجات بلند فرمائے
اور انکے شہزادے جناب سید فیضان و سید ذبیح اللہ و دیگر بردارن واہل خانہ ، حضرت کے تمام مریدین و متعلقین، اعزہ و اقربا، اور حضرت کے ادارے کے طلبہ و اساتذہ کوصبر جمیل عطا فرمائے.. آمین
یہ چند اشعار بطورِتعزیت ، اہلسنن کی نذر …. 
فریدی … 


 
” لفظ لفظ آنسو ہیں حرف حرف نَم اپنا "
کس طرح سنائیں ہم آہ رنج و غم اپنا 


آہ سیدی شاہد ، دنیا سے ہوئے رخصت
ہے جدائ سے سٗونا، روح کا حرم اپنا 


جب خبر سنی ہم نے ، آہ  اُنکی رحلت کی
جیسے دِل نکل آیا تن سے ایکدم اپنا 


آسماں کی آنکھوں سے کیوں نہ اشک جاری ہوں
کوہ سے گراں تر  ہے رنج اور اَلَم اپنا 


موت ایک عالِم کی ، موت ہے زمانے کی
کر رہی ہے یہ دنیا آج غم رقم اپنا 


پردۂ دل و جاں پر جگمگائیں گے شاہد
چھوڑ کر گئے حضرت، نقشِ محترم اپنا 


صبر و حِلم کا سورج ، عشق و علم کا مہتاب
نور بن کے رکھا ہے اس نے ہر قدم اپنا 


آہ ، حالِ دل اپنا کس کو  اب سنائیں ہم  
کس کے سامنے رکھیں راز اور بھرَم اپنا 


مسکراہٹیں ان کی، سارا زخم دھو دیتیں
ان کے پاس لے جاتے جب بھی درد ہم اپنا 


عکسِ نوری و اختر، جلوۂ رضا ” *شاہد*” 
ان کی ذات والا تھی جاہ اور حشم اپنا 


یوں تڑپ تھی حضرت میں عشق مصطفائی کی
دل غمِ محبت سے کر دیا تھا ضم اپنا 


قبر نور سے بھر دے، اور بلند کر درجے
ان پہ رکھ سدا یارب سایۂ کرم اپنا 


نامِ حضرتِ شاہد حشر تک رہے  شاداب
ان میں رنگ بھر دے تٗو ، اے گُلِ اِرم  اپنا 


رنج و غم سے چھلکی ہے آج چشمِ کاغذ بھی
اے فریدی بس کر اب ، روک دے قلم اپنا 


از.. محمد سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی،مسقط عمان

Leave a Comment