نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم

زندگی کے صدف کو گُہر چاہیے
رب کے محبوب کی اک نظر چاہیے

چہرۂ والضحٰی کی ملے روشنی
ظلمتِ جاں کو نورِ سحر چاہیے

میں بھی شمس وقمر سے ملاؤں نظر
خاکِ پاے شہِ بحر و بر چاہیے

دید کے پھول ، شاخِ نظر پر کِھلیں
باغِ دل کو بہشتی ثمر چاہیے

ہے جدائ کی شب کا اندھیرا بہت
وصل کا جگمگاتا قمر چاہیے

عمر بھر سنتوں پر کروں میں عمل
اسوۂ مصطفیٰ پر سفر چاہیے

شاہِ دیں کی گدائی جسے مل گئی
پھر اُسے اور کیا کرّ و فر چاہیے

"سَل رَبیعہ” کہا میرے سرکار نے
مانگ جو چاہیے ! جس قدر چاہیے

بولے حضرت ربیعہ کہ فردوس میں
آپ کے قرب کا مجھ کو در چاہیے

مصطفٰی نے کہا ، جا تجھے دے دیا
اور بھی مانگ لے ! کچھ اگر چاہیے

سر جھکا کر وہ بولے کہ اِس کے سوا
کچھ نہیں اب اے خیر البشر چاہیے

اِس سے ثابت ہوا اختیارِ نبی
ہاں نگاہِ محبت مگر چاہیے

مصطفٰی کو وسیلہ بنایا کرو
گر دعاؤں میں تم کو اثر چاہیے

خلد کیسے ملے گی اُنھیں چھوڑ کر
حبِّ سرکار ، اے بیخبر ! چاہیے

جو نبی کی محبت پہ قربان ہو
ایسا دل اور ایسا جگر چاہیے

مست و بیخود رہوں عشقِ سرکار میں
جذبِ صدیق ، سوزِ عمر چاہیے

جلوہ گر ہیں جہاں شاہِ کون و مکاں
ہاں اُسی خاک میں مُستَقَر چاہیے

نعت لکھتا رہوں ، نعت پڑھتا رہوں
بس فریدی یہی عمر بھر چاہیے

Leave a Comment