قیادتِ حافظِ ملت علیہ الرحمہ
(خصوصی پیشکش بموقعہ عرس عزیزی و جشنِ زریں )
خِزاں رسیدہ ریاضِ ہستی میں پھر سے علمی بہار لائے
جلالۃُ العلم، باغِ ملت پہ حکمتوں کا نکھار لائے
سمیٹ لِیں اپنے فن کی مٹھی میں کہکشاں کی مَسافَتیں بھی
زمیں کی پستی میں آسماں کی بلندیوں کو اتار لائے
بڑا انوکھا، بڑا نرالا تھا جن کی تدریس کا طریقہ
وہ جامِ شفقت سے قلب و جاں پر علومِ دیں کا خُمار لائے
قدم قدم پر رکاوٹیں تھیں، جگہ جگہ حاسدانہ موجیں
بصد حفاظت وہ کشتئ دیں، ہر ایک طوفاں سے پار لائے
کبھی نہ رکنا کبھی نہ تھکنا، انھوں نے دنیا کو ہے سکھایا
اگر کوئ بار بار بھٹکا، تو راہ پر بار بار لائے
ضیاے علم و کمال دے کر، بصیرتوں کا جمال دے کر
دلوں کی بے نور وادیوں میں وہ جلوۂ افتخار لائے
وجود اپنا نہ ذات اپنی، خیال اپنا نہ بات اپنی
فقط شریعت کی فکر لے کر، وہ ہستئِ مُستَعار لائے
زمانہ آواز دے رہا ہے، پھر آج اُس قائدِ جری کو
خدا پھر عبدالعزیز جیسا ، یگانۂ روزگار لائے
جلالۃ العلم ! تم نے بہکے ہوئے ضمیروں کو راہ بخشی
جگر جگر کو شعور دیکر نظر نظر میں قرار لائے
تمہاری نسبت سے مل رہی ہے نیاز مندوں کو کامرانی
اے حافظِ دیں تمہارے صدقے، یہ کیا عزیزی حصار لائے
تمہارے ابرِ ہنر کی بارش کو سرحدیں بھی نہ روک پائیں
اٹھے جو بادل تمہارے در سے وہ عالمی آبشار لائے
ہر ایک ظلمت کے راستے پر جلی ہیں مصباحیت کی شمعیں
عزیزی جلوے قدم قدم پر ہدایتوں کے مِنار لائے
تمہارے علمی فلک نے بخشے ہیں ہر اندھیرے کو چاند سورج
یہاں کے ماہ و نجوم ابھرے تو نور حکمت شعار لائے
جہاں میں ہرسو چمک رہے ہیں ستارۂ خاکِ اشرفیّہ
تمہارے حکمت کدے کے گوہر، نظامِ عالم سنوار لائے
تمہارے کردار کی روش پر، اگر زمانہ یہ گامزن ہو
تو آج کی اِس فضائے شورش میں موسمِ سازگار لائے
تری مقدس لحد پہ ہر دم تلاوتوں کے ترانے گونجیں
خدا کا فیضان تیرے در پر تجلّیِ بے شمار لائے
چراغِ مصباحیت بجھا ہے، نہ بجھ سکے گا کبھی فرؔیدی
ہزار آندھی چلائے کوئ ہزار فوجِ غبار لائے