محبّت ہی محبّت حافظ ملّت


رضا کے در کی تابِندہ کرامت ، حافظ ملت
ضیائے محفلِ صدرِ شریعت حافظ ملّت


تجلی مشرق و مغرب میں ہے جس کے ستاروں کی
ہیں ایسے ماہتابِ چرخِ حکمت حافظ ملّت 


فروغ سنیت میں سب سے آگے کارواں ان کا
یقینا ہیں رضائے اعلٰی حضرت حافظ ملت


منور جسم وجاں اب بھی ہیں انکے جلوۂ فن سے
ہمیں دیتے ہیں علمی شان و شوکت حافظ ملّت


وہ مالی جسکے دم سے ہو گیے اجڑے چمن زندہ

یقینا باغِ حکمت کی ہیں نُزہت حافظ ملّت


نہ کیوں ہو ناز ہم مصباحیوں کو اپنے قائد پر
ہیں دائم اہل ملت کی ضرورت،  حافظ ملت


بہارِ رضویت مہکی، جہاں مصباحیت بن کر 
بریلی کی بصارت اور بصیرت حافظ ملّت 


لگائی تھی جبیں پر خاک جو ہم نے ترے در کی
وہی مٹی ہے اب تاجِ کرامت حافظ ملّت 


زمانے کے تقاضوں سے نہ ہونگے ہم کبھی غافل
کہ تونے بخشی ہے چشم فراست حافظ ملت


وفاؤں کا قرینہ اشرفیّہ نے ہمیں بخشا
محبت کا حرم ہے یہ عمارت، حافظ ملت


ثریّا کی طرح قدموں کی مٹی جگمگاتی ہے
زمیں کو آسماں ہے تیری نسبت حافظ ملّت 


ترے ذرے زمانے بھر میں سورج بن کے روشن ہیں
ترے قطروں میں ہے دریا کی وسعت حافظ ملّت 


ترے کردار کے اندر جمالِ مصطفائی ہے
ترا شیوہ محبّت ہی محبّت حافظ ملّت 


ترے دست خرد نے قوم کی شیرازہ بندی کی
ہیں نازاں تجھ پہ سارے اہلسنت حافظ ملت


فروزاں ہو ترا مرقد مثالِ صبحِ تابندہ 
برستی ہی رہے مولٰی کی رحمت حافظ ملّت 


اُسی فیضان سے میرا نشیمن ہے بلندی پر
دوعالم میں فریدی کی ہیں عزّت حافظ ملّت

Leave a Comment