اوصاف رقم، تیرے ہیں

خامہ و فکر پہ اوصاف رَقَم تیرے ہیں
لب پہ نغمے اے شہنشاہِ اُمم تیرے ہیں

کون ہے صاحبِ ” لَولاکَ لَمَا ” تیرے سوا
یہ جہاں وہ جہاں، سب رب کی قسم تیرے ہیں

تاقیامت "وَرَفعنا لکَ ذِکرَک” کی ہے گونج
بامِ کونین پہ ہر سَمت عَلَم تیرے ہیں

بزمِ امکاں کے سبھی رنگ ہیں تیرے مَملُوک
عَرَض و جوہر و موجود و عدم تیرے ہیں

کیسے ہو تیری تجلی کا ہمیں اندازہ
یہ جو خورشید وقمر ہیں، یہ حَرَم تیرے ہیں

شاہِ دیں ، نور مبیں ، مالکِ کُل ، ختمِ رُسُل
ہر فضیلت سے بڑے جاہ و حشم تیرے ہیں

یدِ ہستی میں "مَفاتِیح خَزَائِن” موجود
” لِأُ تَمِّم ” سے کمالات اَتَم تیرے ہیں

پڑھ کے یہ جان لیا آیتِ ” مآ اٰتٰکُم”
سارےچھوٹے بڑے، محتاجِ کرم تیرے ہیں

اک طرف خاک پہ اے مَخزَنِ رحمت ترے پاؤں
اک طرف قصرِ "دَنٰی” میں بھی قدم تیرے ہیں

نَظمِ عالم ترے اَبرُو کے اشارے پہ چلے
کیسے اے جانِ جہاں ناز و نِعَم تیرے ہیں

سرفرازی تجھے حاصل ہے "وَمَا یَنطِق” کی
قلب و لب، وَحیِ خداوندی سے ضَم تیرے ہیں

کُھل گیا راز یہ اعلانِ "وَعَلَّمَکَ” سے
بخدا زیرِ نظر لوح و قلم تیرے ہیں

اُن کی اک بوند کے ہم پایہ نہیں ہیں کونین
جٗود و عرفان و فراست کے جو یَم تیرے ہیں

فیض پر دست ونظر، ” لَا ” کا نہیں لب پہ گزر
واہ کیا رنگِ عطا ، شاہِ اِرَم تیرے ہیں

"أَنتَ حِلٌّ” کی قَسَم آئ کلامِ رب میں
کتنے محبوب ، نشاناتِ قدم تیرے ہیں

رحم فرما اے مسیحاے زماں، شاہِ شہاں
ہیں گنہگار ، مگر یانبی ہم تیرے ہیں

تیری یادوں سے مہکتا ہے مرا باغ حیات
شَکلِ گُل ہیں، مرے سینے میں جو غم تیرے ہیں

یہ وفا ، بس دَمِ ہستی میں نہیں ہے محدود
موت کے بعد بھی ہم تیری قسم تیرے ہیں

یہ جو حاصل ہے فریدؔی کو فَروغِ ہستی
میرے سرکار ! یہ احسان و کرم تیرے ہیں

Leave a Comment