نام اخترتھا، وہ سورج بھی تھا مہتاب بھی تھا

یاد تاج الشریعہ میں آنسو بہاتے اشعار

چلدیئے آہ وہ ذرّوں کو ستارا کرکے
ہوئے رخصت وہ مریضوں کو مسیحا کرکے

عالَمِ عشق میں ہے آہ و فغاں کی آواز
کون دنیا سے اٹھا، حشر یہ برپا کرکے

جِسکے دیدار سے تھی اہل سنن کو راحت
وہ حسیں چَلدیا ہم سب کو دِوانہ کرکے

حیرت انگیز تھا حضرت کی عطا کا جلوہ
وُسعتیں آپ نے دیں، قطروں کو دریا کرکے

رکھدیا پاؤں تو صحرا کو بنایا گُلزار
رنگِ اعزاز دیا خاک کو سونا کرکے

شمع کی مثل رہی اُن کی حیاتِ اقدس
وہ چمکتے تھے اندھیروں میں بھی جلوہ کرکے

بارِ غم، ایک اشارے سے اتر جاتا تھا
کوہ کو پھول بنا دیتے تھے ہلکا کرکے

اُنکےکردار میں تھا رنگِ کشش ہی ایسا
دل میں بس جاتے تھے، غیروں کو بھی اپنا کرکے 

ایسی صحبت، کہ ہوئے جِس سے مخالف بھی مطیع
دھوپ خود اُن پہ رہا کرتی تھی سایہ کر کے 

گفتگو ایسی کہ پتھر پہ ابھر آئیں حروف
اُسنے دکھلایا سخن کو بھی عجوبہ کرکے

ابرِ باراں کی طرح اُس کا سفر ہوتا تھا
وہ چلا خشک زمینوں پہ بھی سبزہ کرکے

جِنکی ہستی میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اُن کو چـمـکا دیا عظمت کا منارہ کـرکے

اُنکامِلنا ہے یقینی جو طلب ہو سچی
خلد بھی پاؤ گے اختر کی تمنا کرکے

وہ ولی، ابن ولی، ابن ولی، ابن ولی
فیض پشتوں کا ملا ایک سے ناطہ کرکے

لیکےامیدجو اُس بزمِ کرم میں پہنچا
اسکو لوٹایا ہر اک غم کا مداوا کرکے

نام اخترتھا،وہ سورج بھی تھا مہتاب بھی تھا
اُسنے دکھلادیا ہستی کو کرشمہ کرکے

اےفریدی وہ تھاکردار کا ایسا مِعمار
لےلیا کام، حَجَرجیسوں کو ہیرا کرکے

از محمد سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی، بارہ بنکوی مسقط عمان

Leave a Comment