کی محمد سے وفا تو نے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
قلندر لاہوری ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر ، علما ، خطبا ، شعرا اور عوام کو صرف یاد ہی نہیں بلکہ حِرزِ جاں بنا ہوا ہے
عوام و خواص میں اِس کی مقبولیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بارگاہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ قبول ہو چکا ہے ، اسی پر یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
– – – – – –
اے مسلمان ! اگر شاہِ اُمَم تیرے ہیں
"یہ جہاں چیز ہےکیا، لوح وقلم تیرے ہیں”
تیری فطرت میں ہیں گر حُبِ نبی کے جوہر
پھر تو ہر ایک بلندی پہ قدم تیرے ہیں
سَروَرِ دیں سے وفا ، شوکت و اعزاز کی روح
اُن کے فرمان پہ چل ! جاہ و حَشَم تیرے ہیں
ہے زمانے میں سدا ، عشقِ نبی ہی غالب
اُن کا بن جا ! تو قیادت کے عَلَم تیرے ہیں
نام پر اُن کے لُٹا پہلے مَتاعِ ہستی
پھر ذرا دیکھ ! کہ کیا ناز و نِعَم تیرے ہیں
حِفظِ ناموسِ رسالت میں اگر موت آئ
حوضِ کوثر ترا ، باغاتِ اِرَم تیرے ہیں
ان کی سُنَّت کو جو سرمایۂ ہستی کر لے
تخت و تاج و ظَفَر و دام و درم تیرے ہیں
دل کے پیمانے میں بھر ! یادِ نبی کے آنسو
سب بدل جائیں گےخوشیوں سے، جو غم تیرے ہیں
تجھ سے راضی ہیں جو اللہ رسول اے مومن
پھر تو دارین کی عزت کے حرم تیرے ہیں
قولِ رب لکھ گیے کیا خوب ، فریدؔی! اقبال
” کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں”