جلوۂ شاہ تراب الحق

آفتابِ حقّ و صداقت حضرت علامہ شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کے فیض یافتہ کراچی کے کئ احباب و علما بطور خاص علامہ سلیم رضوی و محترم سید وقاص رضوی صاحبان کا حکم تھا کہ جیسی منقبت حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی لکھی ہے اُسی ردیف و قافیے میں حضرت پر بھی لکھیے، چونکہ دونوں شخصیات میں بہت گہرا ربط تھا اسلیے منقبت کا انداز بھی ایک ہو ، میں نے اسے باعث سعادت جانا، بطورِ خلاصۂ سیرت ، یہ مدحت نامہ پیش ہے ہر شعر کسی نہ کسی خاص گوشے پر مشتمل ہے احباب ملاحظہ فرمائیں، فریدیوصال 4 محرم الحرام 1438ھج ، 6 اکتوبر 2016ع بروز جمعرات   

حیدری” خون ہے اور "قادری” شَجرہ تیرا”
واہ کیا رنگ ہے اے "شاہ” انوکھا تیرا

تو نے دکھلائے زمانے کو "حُسینی” جوہر
وقت کے چَرخ پہ لہراتا ہے جھنڈا تیرا

باغِ ایماں کے نگہباں ، اے "ترابِ ملت”
مسلکِ "فکرِ رضا” بن گیا رستہ تیرا

تیرے کردار میں ہے جلوۂ "اختر” کی جھلک
حُسنِ ” اختر” میں نظر آتا ہے چہرہ تیرا

قولِ "اختر” ہے کہ ہم دونوں کے جتنے ہیں مرید
سب ہیں ہم دونوں کے ، اُن میں نہیں میرا تیرا

"پاک” والوں کو ترا در ہے "بریلی” ثانی
اے مرے شاہ سلامت رہے کوچہ تیرا

جامِ "بغداد” ، یدِ "مفتئ اعظم” سے پیا
ہوگیا نور سے معمور سراپا تیرا

رنگِ "تطہیر” ہے گلزار "نَسَب” کے اندر
بٗوے "حسنین” سے کردار ہے مہکا تیرا

"مُصلح الدین” کی حکمت کے امین و نائب
بات کامل ہے تری ، کام ہے پورا تیرا

قربتِ "قطبِ مدینہ” کی "ضیاء” پائی ہے
"فضلِ رحمٰں” سے ہوا رنگ دوبالا تیرا

سینۂ و فکر و نظر ، علمِ اکابر کے امیں
ہے اصاغر کو سَنَد ، خطبہ و خامہ تیرا

حشر تک ہے تری تحریر وخطابت روشن
ہے دلیلوں سے مُزَیَّن لب و لہجہ تیرا

وقت کے شمس و قمر، تیرے کمالوں پہ نثار
نور ہے "شاہ تراب” ایسا نرالا تیرا

گرمئِ عشق نبی تو نے دلوں کو بخشی
اہلسنت کے ہر اک گھر میں ہے چرچا تیرا

تیرا نام آئے ، تو آجائے "بریلی” کا خیال
اتنا مضبوط "رضاخاں” سے ہے رشتہ تیرا

تیری للکار سے باطل کا جگر ہے بے حال
دبدبہ آج بھی ہے رنگ دِکھاتا تیرا

قادیانی تری ہیبت سے ہیں لرزاں اب بھی
سرحدِ "ختم نبوت” پہ ہے پہرا تیرا

رافضی ، خارجی ، اور نجدی ، وہابی ، مُلحِد
آج بھی سب پہ شَرَربار ہے نیزہ تیرا

تجھ کو پایا تو مِلا ہم کو "رضا” کا سایہ
"اعلیٰ حضرت” سے تعلق ہے کچھ ایسا تیرا

ہم سے چھوٹے گی نہ دہلیز تری نسبت کی
نسل در نسل ہے رشتہ یہ ہمارا تیرا

بات آنکھوں کی نہیں ، بات یہ احساس کی ہے
اہل دل آج بھی کرتے ہیں نظارا تیرا

تیرا دربارِ کرم ، اہل محبت کا حرم
اک نئی روح عطا کرتا ہے روضہ تیرا

مردِ حق مرد جری ! ہم تری شوکت پہ نثار
زندگی سادہ ہے اور نام ہے اونچا تیرا

اہلسنت پہ سدا رکّھی مُرَوَّت کی نظر
بدعقیدوں کو جَلاتا رہا شعلہ تیرا

"شاہ صاحب” تری بیباک قیادت کو سلام
مشکلوں میں نہ کبھی حوصلہ ٹوٹا تیرا

خاص پہچان ملی حق پہ تَصَلُّب کی اُنھیں
دامنِ پاک جنہوں نے بھی ہے تھاما تیرا

مُستند ہے ترا کردار فروغِ حق میں
اہل سنت میں ہے مقبول حوالہ تیرا

سیکڑوں مسجد و تنظیم و مدارس کے مدیر
موت کے بعد بھی ٹھہرے گا نہ دھارا تیرا

ہاتھ ذروں کو لگایا تو بنایا سورج
فیض بخشا تو سمندر ہوا قطرہ تیرا

ہم کو جینے کا ہنر تیری اداؤں سے ملا
کامیابی کا مُعلم ہے طریقہ تیرا

تیری نسلوں میں رہیں علم کے ماہ و انجم
جگمگاتا رہے تا حشر گھرانہ تیرا

یاد ہے چشمِ کراچی کو وہ تاریخی ہجوم
جب اٹھا تیرے دِوانوں میں جنازہ تیرا

اے فریدی ! جو لکھی شان ، تراب الحق کی
فکر چمکی ہے ، منور ہوا خامہ تیر

Leave a Comment