نم ہو گئیں آنکھیں

آغازِ مُحرَّم ہوا ، نَم ہوگئیں آنکھیں
دل روپڑا ، اور چشمۂ غم ہوگئیں آنکھیں

یاد ایسی ، کہ کچھ اور دکھای نہیں دیتا
کربل کے تصور میں ہی ضَم ہوگئیں آنکھیں

نکلا ہے کفن باندھ کے خود ذوقِ شہادت
ابرو بنے تلوار ، عَلَم ہوگئیں آنکھیں

ہر ایک حسینی کو نئی تاب ملی ہے
جرات کے اجالوں کا حرم ہوگئیں آنکھیں

جب مل گیا شبیر کی چاہت کا اجالا
کیا شان کہ تنویر ارم ہوگئیں آنکھیں

پایا ہے شہیدوں نے بل احیآء کا مژدہ
یوں چرخِ بقا پر وہ رقم ہوگئیں آنکھیں

ہے ایسا ادب ، محفلِ کونین میں اُن کا
نام آیا تو سر جھک گیے ، خَم ہوگئیں آنکھیں

میں اُن کی عطاؤں کے تو لائق ہی نہیں تھا
رونے لگیں اور وجہِ کرم ہوگئیں آنکھیں

ہر وقت شہیدوں کے خیالات میں گم ہیں
ہے ایسا اَلَم ، خود ہی الم ہوگئیں آنکھیں

سب فیصلے موقوف ہیں اندازِ نظر پر
آیا جو محرم ، تو حَکَم ہوگئیں آنکھیں

یہ رنگ ادب دیکھیے ! الفت کے سفر میں
خود ذوقِ طلب، خود ہی قدم ہو گئیں آنکھیں

غیروں میں تو ہنستی رہیں ہر درد چھپا کر
اپنوں نے رکھا ہاتھ تو نَم ہو گئیں آنکھیں

اشکوں سے فریدی نے لکھی اُن کی حکایت
کاغذ ہوا دل، اور قلم ہوگئیں آنکھیں

Leave a Comment