تیرا فیضان ہے سورج مری انگنائی کا

الحمد للہ میں نے یہ اشعار، اپنے مادر علمی ، الجامعة الاشرفيه مبارکپور اعظم گڑھ میں ، روضۂ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے سامنے بیٹھ کر لکھے ہیں … فریدی

تذکرہ کیسے کروں میں تری دانائ کا
میری حد میں نہیں رتبہ تری بالائ کا


یاد آتی ہے نظر، حافظ ملت ! تیری
ذکر آجاتا ہے جب علم کی بینائ کا


نہ تکلف، نہ بناوٹ، نہ دکھاوا، نہ غرور
فلسفہ سب سے جدا ہے تری رعنائ کا


تیرا دیدار،  مری کشتِ نظر کو سینچے
لہلہا اٹّـھـے چـمن ،  قلـبِ تمنائ کا


تیری دہلیز سےملتا ہںے جبینوں کو وقار
ہںے اثر خاک میں بھی تیری مسیحائ کا


لوگ اب دیکھتےہیں قدر کی آنکھوں سے مجھے
سارا اعزاز ہے یہ تجھ سے شناسائ کا


جب ترے قطروں کی وسعت پہ ہے عالَم حیراں
کیسے اندازہ لگے پھر ‛ تری گہرائ کا


رات دِن رہتے ہیں قرآن کے نغمے آباد
ہںے عجب رنگ ترے در کی پذیرائ کا


بام و در‛ عِلم کےپھولوں سےسجے رہتے ہیں 
اشرفیّہ میں ہے جلوہ تری زیبائ کا


جِسکےکانوں میں سمائ ہو‛تری بزم کی گونج 
پھروہ شیدا ہوبھلاکیوں کسی شہنائ کا 


نعمت حق سےہیں محروم، مخالف تیرے
اُن کا یہ شُغل ہںے دارین کی رُسوائ کا


دن بدن بڑھتاہی جائیگا‛ ترے ذکرکا نور
تا ابدگونجے گا نغمہ‛ تری دارائ کا


کیاڈراۓگی بھلا ظُلمتِ باطِل مجھکو 
تیرا فیضان ہںے سورج، مری انگنائ کا


شعر ہوں رنگِ عقیدت میں، فریدی کامِل
مجھکو آ جاۓ ہنر ، قافیہ پیمائ کا


✍🏼از فریدی صدیقی مصباحی بارہ بنکوی‛‛ نوری مسجد ، مسقط عمان

2 thoughts on “تیرا فیضان ہے سورج مری انگنائی کا”

Leave a Comment